احمدی کا مبارک امتیازی نام
|
اے عزیزو اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا کلمہ گو ہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوفِ خدا انیسویں صدی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے جس میں ہر فرقہ اپنے لئے جو نام پسند کرتا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھوائے گا۔ اس وقت تک پنجاب اور ہندوستان میں تیس ہزار مخلصین شامل ہوچکے تھے اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اشتہار میں اعلان فرمایا:
اس نام کا پس منظر یہ بیان فرمایا کہ
۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو دہلی میں ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھو سمّٰکم المسلمین (الحج:۷۹) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:
مزید ارشاد فرمایا:
نیز فرمایا:
خدا تعالیٰ نے اس مبارک نام کو قبولیت کا ایسا عالمی شرف بخشا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ مصر سے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے نام سے ضخیم انسائیکلوپیڈیا شائع ہوئی ہے جس میں الاحمدیہ ہی کے زیر عنوان بہت قیمتی نوٹ چھپا ہے۔ علاوہ ازیں مجلتہ الازھر شعبان ۱۳۷۸ھ (فروری ۱۹۵۹ء) میں مدیر مذہبیات الدکتور محمد عبداللہ کے قلم سے جماعت احمدیہ کے جرمن قرآن پر تبصرہ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے ’’نشرت ھذہ الترجمہ البعثۃ الاحمدیہ‘‘۔ پاکستان میں ’’اردو انسائیکلوپیڈیا‘‘ ، ’’اردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’شاہکار انسائیکلوپیڈیا‘‘ بالترتیب فیروز سنز لاہور، غلام علی اینڈ سنز لاہور اور شاہکار بک فاؤنڈیشن کراچی کی طرف سے منظر عام پر آ چکے ہیں ان سب میں احمدی نام موجود ہے۔ حضرت قائد اعظم کی پریس ریلیز اخبار ڈان (DAWN) کی ۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں درج ذیل الفاظ میں چھپی: "Ahmadiyya Community to support Muslim League” ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا ’’جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشا کو سمجھا ہے احمدیوں کا اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی‘‘ (’اقبال اور احمدیت صفحہ ۹۰ مرتبہ بشیر احمد ڈار ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور) پاکستان کے محقق و مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔اے نے ’’موجِ کوثر‘‘ میں، جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘‘ میں۔ جناب اصغر علی گھرال صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور نے اپنی کتاب ’’اسلام یا ملاّ ازم‘‘ میں بے دریغ احمدی ہی کا نام استعمال کیا ہے۔ پاکستانی پریس قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار مرتبہ یہ مبارک نام استعمال کرچکا ہے مثلاً’’ پاکستان ٹائمز‘‘ (۱۳؍نومبر ۱۹۸۰ء)،’’ مشرق‘‘ (۳۰ جون ۱۹۷۴ء) ’’نوائے وقت‘‘ (۱۲ ؍اپریل ۱۹۶۰ء)، ہفت روزہ ’’رضاکار ‘‘لاہور (۲۴ مئی ۱۹۷۳ء)۔ احمدیت کے مخالف لٹریچر میں بھی مدت سے احمدی نام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ جناب ملک محمد جعفر خان نے احمدیت کی مخالفت میں جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہی ’’احمدیہ تحریک‘‘ رکھا ہے۔ مفکر احرار چوہدری افضل حق نے ’’فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیوں‘‘ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو زبردست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے انہیں احمدی کے ہی نام سے یاد کیا ہے۔ مولوی ظفر علی خان مدیر ’’زمیندار‘‘ نے ۱۹؍مارچ ۱۹۳۶ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ: ’’احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔‘‘ (تحریک مسجد شہید گنج صفحہ ۱۶۹۔ مؤلفہ جانباز مرزا) نامور اہل حدیث عالم میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے ’’پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ‘‘ کے صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳ پر کئی بار احمدی کا لفظ استعمال کیا۔ نیز لکھا: ’’احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے (تحریک پاکستان مراد ہے۔ ناقل) کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔‘‘ ’’اور اس امر کا اقرار کہ احمدی اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں ، مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی ہے‘‘ یہ حیرت انگیز واقعہ مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ نام نہاد ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مولوی تاج محمد صاحب نے ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو بیان دیا کہ: ’’ یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا، اذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں۔‘‘ غرضیکہ کہاں تک بیان کیا جائے احمدی کا مبارک نام عرب و عجم اور احمدی اور غیر احمدی حلقوں میں قریباً ایک صدی سے استعمال ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی دائمی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ اس ضمن میں قارئین الفضل کو یہ چونکا دینے والا انکشاف یقیناً ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ سیاسی ملاؤں نے ۱۹۵۲ء کی ایجی ٹیشن کے دوران یہ فتوی دیا کہ: ’’مرزائی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے۔‘‘ (احراری اخبار ’’آزاد‘‘ لاہور ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ۹ کالم ۲، مطالبہ نمبر) اس ضمن میں مولوی عبدالحامد بدایونی صاحب نے ۹ جولائی ۱۹۵۲ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے زیر عنوان آرام باغ میں جو تقریر کی اس کا خلاصہ اخبار ‘‘آزاد‘‘ ۱۳؍جولائی ۱۹۵۲ء نے صفحہ نمبرایک پر پہلی سطر میں نہایت درجہ جلی قلم سے حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا: ’’مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ نیز رپورٹ میں مزید لکھا کہ: ’’آپ نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ مرزائیوں نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان نہیں کہلایا وہ خود اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۱ کالم۲) اب ان سیاسی ملاؤں کی حالیہ قلابازی ملاحظہ ہو کہ پچھلے دنوں پاکستان کی نگران حکومت نے جب یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی سفارتخانوں کو یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ پاسپورٹوں میں قادیانی کی بجائے احمدی کا لفظ استعمال کیا جائے تو پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں مقیم سیاسی ملاؤں نے بھی ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس ضمن میں روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء نے صفحہ۷ پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس کی دوہری سرخی یہ تھی: ’’قادیانیوں کو احمدی لکھنے کے فیصلے پر برطانیہ بھر کے علماء کا احتجاج۔نگران حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو مسلمان میدان میں آنے پر مجبور ہوں گے۔ دینی رہنماؤں کا ردّعمل‘‘ ازاں بعد لندن کے اخبار ’’دی نیشن‘‘ ۲۴ تا ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۷ء کے صفحہ۵ پر لندن کی مرکزی جماعت اہل سنت کی اپیل پر ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منائے جانے کی خبر اشاعت پذیر ہوئی جس میں کہا گیا کہ: ’’قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر انہیں شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت دینا تعلیمات مصطفوی سے انحراف ہے۔‘‘ بالفاظ دیگر ’’احمدی‘‘ کا نام شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے اس کا استعمال تعلیمات مصطفوی سے انحراف کے مترادف ہے۔ حالانکہ ایک صدی سے خود ان حضرات کے اکابر و اصاغر یہ نام استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر امت مسلمہ ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منانے والے سیاسی ملاؤں اور طالع آزماؤں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اعلان کریں کہ جماعت کے لئے احمدی کا لفظ استعمال کرنے والوں کو کیا تعلیمات مصطفوی سے منحرف اور باغی قرار دیتے ہیں؟؟ علامہ شبلی نعمانی نے کیا خوب کہا تھا کرتے ہیں مسلمانوں کی تکفیر شب و روز بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں پاکستان کے فاضل ادیب و کالم نویس جناب عنایت حسین صاحب بھٹی نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور (۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء) میں سیاسی ملاؤں کے اس طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’مولوی صاحبان نے احتساب کرانے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا۔ وہ احمدی اور قادیانی مسئلہ میں الجھ گئے یا الجھا دیئے گئے اور حسب سابق پٹڑی سے اتر گئے۔ لیکن مولوی حضرات سے ایک سوال کرنے کی جرأت کروں گا کہ قادیانی سوائے پاکستان کے پوری دنیا میں احمدی کہلاتے ہیں۔ پورے افریقہ میں ان کے مشن ہیں جو لوگوں کو تبلیغ کرکے ان کے مذاہب تبدل کرکے ان کو احمد کا نام دیتے ہیں۔ پورے یورپ اور دیگر ممالک میں وہ احمدی کہلاتے ہیں حتیٰ کہ بھارت میں بھی ان کو احمدی کہا جاتا ہے۔ مگر صرف پاکستان میں احمدی نہ کہا گیا تو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں ایک لطیفہ سنئے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر پر ایک سکھ چڑھ گیا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پر اس نے گھڑیال کا پنڈولم پکڑ لیا اور کہنے لگا اب میں زیادہ نہیں بجنے دوں گا۔ لوگ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ سردار جی جب ساری دنیا کی گھڑیوں پر بارہ بج جائیں گے تو اگر ایک گھڑیال میں نہ بجے تو کیا فرق پڑے گا۔ مولوی حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن میں ارشاد پروردگار ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں، آپ سیاست کو چھوڑ کر دین کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ لوگوں کو دلائل سے قائل کیجئے کہ صحیح اسلام کیا ہے، دنیا میں اپنے تبلیغی مشن بھیجیں تاکہ لوگ صحیح دین سے متعارف ہوں، ڈنڈے سے کام تو وہ لیتا ہے جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍مئی ۱۹۹۷ء تا ۵؍جون ۱۹۹۷ء) |